ہِسٹامِن اِنٹالرنس
ہِسٹامِن ایک
کیمیکل (کیمیا) ہے جو قدرتی طور پر ہمارے جسم میں پایا جاتا ہے۔ یہ کیمیا
بنیادی طور پر کسی بھی شے سے الرجی کے نتیجے میں جسم پیدا ہوتا ہے۔ یہی ہِسٹامِن
قدرتی طور پر کچھ کھانوں میں بھی موجود ہوتا ہے۔ ہمارے جسم کا جو ہِسٹامِن
ہے ہما را جسم اس سے آشنا ہوتا ہے ۔ مگر جب ہِسٹامِن باہری ذریعے سے جسم میں جاتا
ہے تو ہرانسان کا جسم اس کا علیحدہ ردِعمل
دیتا ہے اور جسم پر اس کے علیحدہ اثرات ہوتے ہیں۔
جب بھی کھانوں میں موجود ہِسٹامِن کھایا جاتا ہے تو جسم میں
موجود ایک اِنزائم (کیمیا) اس ہِسٹامِن کو توڑنے کا عمل سر انجام دیتا ہے۔اس
اِنزائم کو " ڈائی امین آکسیڈیز"
کہا جاتا ہے۔ یہ اِنزائم صحت مند لوگوں میں اس حد تک کافی ھوتا ہے کہ باہری
کھانے سے انے والی ہِسٹامِن کے اثر کو ضائل کر سکے۔ مگر کچھ لوگوں میں اس اِنزائم
کی کمی ہو تی ہے۔ اور جب یہ لوگ وہ کھانے کھاتے ہیں جن میں ہِسٹامِن کی مقدار
زیادہ ہوتی ہے تب ان کو ایک خاص قسم کی الرجی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جسے
"ہِسٹامِن اِنٹالرنس" کہتے ہیں۔
ہِسٹامِن انٹالرنس ایک قسم کی الرجی ہے۔ اس الرجی کے شکار
لوگ جب بھی ہِسٹامِن سے بھرپور کوئی غذا کھاتے ہیں تو ان کے جسم میں کچھ تکالیف
پیدا ہو جاتی ہیں۔ان تکالیف میں سر
درد،چہرے کا سوجھ کر لال ہو جانا ،خارش،قے،دست اور پیٹ میں درد ہونا شامل
ہیں۔عموماً کھانا کھانے کے کچھ دیر بعد اور صبح جاگتے ہی اس الرجی کا دورہ پڑتا
ہے۔ہِسٹامِن کیونکہ خون میں موجود ہوتا ہے
اور خون کے ذریعے ہی جسم میں سفر کرتا ہے لہٰذا اس الرجی کی علامات سارے جسم میں
نظر آتی ہیں۔ عموماً مریض اپنے سر میں دباؤ اور دل ڈوبتا ہوا محسوس کر تے ہیں۔
ہِسٹامن انٹالرنس رکھنے والے لوگوں کہ ان کھانوں سے گُریز
کرنا چاہیے جن میں ہِسٹامِن زیادہ مقدار میں موجود ہو۔ وہ کھانے جن میں ہِسٹامِن
بہت زیادہ مقدار میں موجود ہوتی ہے وہ یہ ہیں:
-شراب
-شراب
-ہر قسم کا اچار
-ٹِن فوڈ
-پنیر
-سینکھا ہوا گوشت(مُرغی، بکرے یا گائے کا گوشت)
- مچھلی
ہِسٹامِن انٹالرنس کا کوئی مستقل علاج نہیں ہے۔ بچاؤہی اس کا بہترین علاج مانا
جاتا ہے۔ الرجی کا دورہ پڑنے پر "اینٹی ہَسٹامِن" ادویات لی جا سکتی ہیں ۔
ہِسٹامِن الرجی کسی کو بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ کسی خاص عمل تک
محدود نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی خاص وجہ ہو سکتی ہے۔ ہِسٹامِن انٹالرنس کسی بھی فرد میں پیدائش سے ہی موجود ھوتی ہے۔
مگر کھانے میں ہِسٹامِن کی مقدار کا خیال رکھ کر اس الرجی سے بچا جا سکتا ہے۔
0 comments:
Post a Comment