Powered by Blogger.
RSS

Fish allergy - Machli se allergy - Urdu



مچھلی سے الرجی(فِش الرجی)
کیا مچھلی کھانے کے بعد آپ کومُنہ میں جلن یا سوزش محسوس ہوتی ہے؟ سانس رک جاتاہے؟ پیٹ میں درد ہوتاہے؟اگر ہاں تو یہ مچھلی سے الرجی کی نشانیاں ہو سکتی ہیں!
مچھلی سے الرجی ایک شدید الرجی ہےمچھلی سے الرجی بچپن سے بھی شروع ہو سکتی ہے اور بچّوں کے معاملے میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے مگر زیادہ تر یہ الرجی بالغ ہونے کے بعد ہی سامنے آتی ہے۔یہ الرجی جن لوگوں میں موجود ہو مچھلی کھاتے ہی ان کے جسم میں کئی تکالیف ہو جاتی ہیں۔ان تکالیف میں سانس لینے میں دُشواری ، پیٹ درد،کھانسی،چکّر آنا،نبض تیز ہو جانا،رنگ لال ہو جانا، قے، دست، اور بے ہوشی طاری ہو جانا شامل ہیں
وہ مچھلیاں جن سے الرجی سب سے زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے:
-خوردنی مچھلی   -سیلمن -ہیلی بیٹ –ٹونا  -انچوویز-بَیس-سنیپر-کیٹ فش-سوارڈ فش
ان کے علاوہ بھی بہت سی مچھلیاں ہیں عام طور پر الرجی ایک سے زیادہ قسم کی مچھلیوں سے ہوتی ہے، اس لئے مچھلی سے الرجی رکھنے والے لوگوں کو ہر  طرح کی مچھلی سے گُریز کرنا چاہیے۔عام طور پر مچھلی اور مچھلی سے بنی چیزیں خریدتے ہوئے ڈبّے پر دیے گئے اجزاء کو بخوبی پڑھ لیا جانا چاہیے۔وہ کھانے جولا علمی میں عموماً مچھلی سے الرجی کا باعث بنتے ہیں   ان میں باربی کیو ساس، جیلاٹِن ،کیپے چینو،فِش آئل شامل ہیں۔
مچھلی سے الرجی ایک خطرناک صورتِ حال ھوتی ہے ۔اسے ایک ایمر جنسی مانا جاتا ہے۔ صحیح طریقے سے اور فوری مدد نہ ملنے ہر یہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ اس الرجی کا کوئی مستقل علاج نہیں ہے۔ ہر الرجی کی طرح ، احتیاط ہی اس سے بچنے کا بہترین طریقہ مانا جاتا ہے۔مچھلی سے الرجی   رکھنے والے لوگوں کو ہمیشہ احتیاطی تدابیر کا دھیان رکھنا چاہیے۔ سب سے اہم احتیاط یہ ہے کہ "ایپی نیفرین آٹو اینجیکٹرز" ہمیشہ ساتھ رکھیں۔یہ ایک قسم کے اینجیکشن(ٹیکے)ہوتے ہیں جو دوائی کی دوکانوں میں "ایپی پین"، "اووی کیو" اور "ایڈرینا کلِک "کے نام سے آتے ہیں۔ڈبّے میں موجود کوئی بھی چیز کھانے سے پہلے اس پر دیے گئے اجزاء ضرور پڑھ لیں۔
مچھلی سے الرجی کسی کوبھی  کو ہو سکتی ہے۔ مچھلی سے الرجی پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہے۔اس کی کوئی خاص وجہ یا عمر نہیں ہوتی ہے۔ تھوڑی سی احتیاط اور حاضر دماغی سے اس خطرناک الرجی سے بچا جا سکتا ہے۔

  • Digg
  • Del.icio.us
  • StumbleUpon
  • Reddit
  • RSS

0 comments:

Post a Comment